تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین
حوزہ نیوز ایجنسی| حق کی تلاش میں مقام پیدائش رامہرمز سے انطاکیہ، اسکندریہ سے عرب، جستجو، جد و جہد، مشقت، جذبہ دینی، ذوق معرفت، درباری سیدہ (س)، غلامی اہلبیت علیہم السلام، مشتاق زیارت محمدؐ، عقل و شعور نے سلمان کو کمال، عظمت و منزلت، عصمت و طہارت، سلمان منا اھل البیت، عرش بریں سے خلد بریں تک کا سفر مطالعہ کا مطالبہ کرتا ہے۔سلمان فارسی کو بلند مقام حاصل ہے۔ مشہور و معروف حدیث پیش نظر ہے "سلمان اھل البیتؑ"۔ اگرچہ حضرت سلمان نے ہمیشہ اپنے آپ کو اہلبیت علیہم السلام کا غلام کہا مگر اہلبیتؑ نے ان کو عرش بریں پر پہنچا دیا۔
حضرت سلمان کا نسبتی تعلق اصفہان کے آب الملک کے خاندان سے تھا۔ آپ دو نام سے زیادہ مشہور ہیں مابہ ور روزبہ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کا نام سلمان قرار پایا۔ حضرت محمد مصطفٰی ﷺ نے آپ کو سلمان الخیر کا لقب عنایت فرمایا۔ اس کے علاوہ طیب، طاہر لقمان الحکمۃ وغیرہ بھی آپ کے القاب ہیں۔ اباعبداللہ کنیت ہے۔ سلسلہ نسب روزبہ بن بوذخشاں بن مورسلان بن بہبوذان بن فیروزین سہرک۔
جن لوگوں کو حضرت سلمان کی نسل، خاندان، حسب و نسب کے بارے میں معلوم نہیں وہ ایک معمولی شخص سمجھتے ہیں حالانکہ آپ کا تعلق ایران کی شاہی نسل سے تھا۔ لیکن سلمانؑ کی عاجزی اور سادگی کا کمال یہ ہے کہ آپ نے اسے اپنے لیے باعث فخر و افتخار نہیں سمجھا۔
ہر زمانہ میں دیکھا گیا ہے کہ کسی کی عظمت و برتری لوگوں کو برداشت نہیں ہوتا، لہٰذا ایک مرتبہ کسی شخص نے حضرت سلمان سے آپ کے نسب کے متعلق سوال کر ہی لیا تو آپ نے جواب دیا کہ میں سلمان، فرزند اسلام ہوں۔ میں ایک غلام تھا مجھے اللہ نے محمدؐ کے ذریعہ آزاد کرایا۔ میں ایک بے حیثیت شخص تھا اللہ نے مجھے محمدؐ کے ذریعہ عزت بخشی۔ میں ایک فقیر تھا اللہ نے مجھے محمدؐ کے ذریعہ غنی کر دیا بس یہ میرا حسب و نسب ہے۔
حضرت سلمان دریائے علم تھے۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک دن جابر بن عبداللہ انصاری نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے ایک روز رسولؐ سے سلمان کے بارے میں سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ سلمان دریائے علم ہیں۔ کوئی ان کے علم کا اندازہ نہیں لگا سکتا اور انہیں اوّل و آخر کے علم سے مخصوص کیا گیا ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ایمان کے دس درجے پر ہیں۔ آٹھویں پر مقداد، نویں پر ابوذر اور دسویں پر سلمان فائز ہیں۔ ایک شخص نے امام صادقؑ سے عرض کیا کہ یا بن رسولؐ اللہ آپؐ دے اکثر و بیشتر سلمان فارسی کا ذکر سنتا رہتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا سلمان فارسی نہ کہو بلکہ سلمان محمدیؐ کہو۔ کیا تم جانتے ہو کہ ماں کا ذکر بہت زیادہ کیوں کرتا ہوں؟ پھر فرمایا تین خصلتوں کی وجہ سے۔
ان تین میں سے پہلی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی خواہش نفس پر امیر المومنین کی خواہش کو مقدم کیا۔ دوسری وجہ یہ کہ وہ فقراء و مساکین کو دوست رکھتے اور تیسری وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے ذوالجلال علم کی وجہ سے علماء کو بہت دوست رکھتے تھے۔
حضرت سلمان کی ایک بڑی فضیلت یہ ہے کہ انہیں حضرت فاطمتہ الزہؑرا، خاتون جنت کے دروازے کی دربانی کا شرف بھی حاصل ہے۔ اور انہیں حاجب علیؑ یعنی علیؑ کا دربان کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔
جنگ خندق سلمان کی عظمت میں باعث اضافہ۔ جنگ خندق 5 ہجری میں ہوئی۔ اس جنگ میں پورا عرب، اسلام اور مسلمان کے خلاف نبرد آزما تھا اور خود شہر مدینہ پر حملے کی تیاریاں تھیں جس کے ارد گرد نہ فصیلیں تھیں اور نہ شہر پناہ۔ ادھر مسلمانوں کا ایک مختصر لشکر اور بچاؤ کی کوئی تدبیر نہ تھی۔ رسول اکرم ﷺ نے مسلمانوں سے مشورہ کیا۔ سلمان نے مشورہ دیا کہ ہمارے یہاں ایران میں جب ایسی صورت حال ہوتی ہے تو ایرانی لوگ شہر کے گرد خندق کھود لیتے ہیں اور ایک طرف سے جنگ کرتے تھے۔ مسلمانوں کو یہ مشورہ بہت پسند آیا اور ختمی المرتبت پر وحی نازل ہوئی کہ اسی پر عمل کرو۔
یہ بھی واقعہ بہت دلچسپ ہے کہ سلمان ہم اہلبیتؑ میں سے ہیں۔ سلمان بڑھاپے کے باوجود قوی تھے۔ جب خندق کھودی جا رہی تھی تو سلمان مختلف ٹکڑیوں میں جا جا کر کام کر رہے تھے۔ مہاجرین کہتے کہ سلمان ہم میں سے اس کے جواب میں انصار بھی کہتے کہ سلمان ہم میں سے ہیں۔ جب اس بات کا تذکرہ زیادہ ہوا اور تاجدار انبیاءؐ کو خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے سلمان کا ہاتھ پکڑ کے فرمایا "سلمان منا اھل البیت" سلمان ہم اہلبیت میں سے ہے۔
چونکہ رسول ﷺ ایک بندہ خالص و مخلص تھے اس لیے اللہ نے ان کے اہلبیت کی ایسی تطہیر کی جو تطہیر کا حق تھا اور ان سے رجس اور ہر عیب کو دور رکھا اور جسے عربی میں گندگی کہتے ہیں۔ اس کے بعد یہ بھی فرمایا کہ جس شخص کو بھی اہلبیتؑ کی طرف نسبت دی جائے گی اس کا مطہر ہونا لازمی ہے۔ اس کے بعد عالم اسلام کے جلیل القدر مصنف محی الدین بن عربی نے اس حدیث سے سلمان کی عصمت و طہارت پر استدلال کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ رسولؐ اللہ کا سلمان کو اپنے اہلبیتؑ میں شامل کرنا ان کی طہارت خدائی حفاظت اور عصمت کی گواہی دیتا ہے۔
حضرت سلمان اپنی چھوٹی سی عمر میں غور و فکر کرتے اور فین مجوس کے متعلق سوچا کرتے کہ آگ اور پتھر کیونکر انسان کے خدا ہو سکتے ہیں؟ آپ گرجا گھر میں گئے اور راہب سے دریافت کیا محمدؐ کون ہیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ یہ وہ رسول ہیں جن کا ذکر آسمانی کتابوں میں ہے۔ اللہ اسی رسول پر اپنی رسالت ختم کرے گا۔ یہ سب تحقیق کرنے پر ان کے والد قید خانہ میں ڈال دیا۔ قید سے رہائی کے بعد انطاکیہ پھر اسکندریہ اس کے بعد راہب کر مشورے پر راہ اختیار کیا۔ محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب کے ظہور کا زمانہ قریب ہے۔ وہ ریگستان میں ظہور کریں گے اور کھجور والی زمین پر ہجرت کریں گے۔ ان کی علامتیں یہ ہیں کہ جو ہدیہ کو قبول کریں گے اور صدقے کو رد کر دیں گے۔ ان کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی۔ دیدار رسول ﷺ کے لیے سلمان مدینے پہنچ گئے۔
سلمان کو پہچاننے کے لیے ان حلم قرآن و علم فقہ و حدیث، علم و فضل، خادم سے برتاؤ، سادگی، دوستی، ضیافت، مال غنیمت کی تقسیم، ان کی مدائن کی گورنری، خط وکتابت، سلمان اور کربلا، فوج کی سربراہی، جنگ خندق کا قیمتی مشورہ، سلمان کا اسلامی درجہ، سلمان کے عقیدے کا پس منظر، اور جنگی اخلاق وغیرہ کا گہرائی و گیرائی سے مطالعہ لازمی ہے اگر آپ حضرت سلمان فارسی رضی اللّٰہ کی عصمت و طہارت و عظمت سے آشنائی چاہتے ہیں۔
اگر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ کے کردار کو اعلانیہ بیان کیا جائے تو ہمارے لیے سر خم کرنے کے سوا اور کوئی مناسب راستہ نہیں اور ہم مسلمانوں کو اپنے آپ سے شرمندگی ہوگی۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ جب مسلمان ہوئے تو ایسے مسلمان ہوئے کہ خود آقا دوجہاںؐ نے ان کو اپنے اہلبیت میں شامل کر لیا اور ہم جو براہ راست خود کو رسولؐ اور ان کی آل کا عاشق کہتے ہیں، ہمارے کردار و عمل کا اسلام سے دور دور تعلق نظر نہیں آتا۔ نمازی، حاجی، مسلم حکمران، دانشوران، علمائے کرام، ذاکرین، شعراء، اور تمام مسلمان کے کردار و عمل مشکوک نظر آتے ہیں۔ خوف خدا نہیں، فقدان ایمان، ایسا لگتا ہے کہ کم قیمت پر اپنی روح، ضمیر، انسانیت اور آخرت کا سودا کر لیا ہے۔ صیہونیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بچوں اور عورتوں کا قتل ہو رہا ہے۔ مسجدوں، اسپتالوں، ایمبولینسوں، درسگاہوں، کتب خانوں اور مکانوں پر بم برسائے جا رہے ہیں اور مسلم حکمران ان ظالموں کو بم برسانے کے لیے ایندھن اور دیگر سہولیات مہیا فراہم کر رہے ہیں۔ پھر بھی شفاعت اور جنت الفردوس کے متمنی ہیں۔